Tuesday, April 12, 2011
غزل ..... عنبرین حسیب عنبر
جز ترےکچھ بھی نہیں اور مقدر میرا
تو ہی ساحل ہے مرا، تو ہی مقدر میرا
تو نہیں ہے تو ادھوری سی ہے دنیا ساری
کوئی منظر مجھے لگتا نہیں منظر میرا
منقسم ہیں سبھی لمحوں میں مرے خال و خد
یوں مکمل نہیں ہوتا کبھی پیکر میرا
میرے جذبوں کی دھنک سے ہے سجاوٹ اس کی
میرے احساس کی تجسیم بنا گھر میرا
کل وراثت یہی اجداد سے پائی میں نے
فکر میراث مری ۔علم ہے زیورمیرا
کس لئے مجھ سے ہوا جاتا ہے خائف دشمن
میرے ہمراہ نہیں ہے کوئی لشکر میرا
میں نے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی نہیں
میرے پندار نے جھکنے نہ دیا سر میرا
اس نے مجھ سے بھی جدا کر دیا مجھ کو عنبر
وہ جو اک شخص ملا تھا مجھے بن کر میرا
عنبرین حسیب عنبر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
یہ جو جوتا اٹھا کے لایا ہوں
ReplyDeleteیہ نہ سمجھو چرا کے لایا ہوں
اس کو مولا کی دین ہی سمجھو
اس کے گھر سے اٹھا کے لایا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں گائے تھے خوشیوں کے ترانے
مقدر دیکھئیے ۔۔۔ روئے وہیں پر
ہوئے مسجد میں گم جوتے ہمارے
جہاں سے پائے، اب کھوئے وہیں پہ
—————————————
میں جو جوتے چھپا کے لایا ہوں
یہ نہ سمجھو چرا کے لایا ہوں
اس کو مولا کی ہی دین سمجھو
اس کے گھر سے اٹھا کے لایا ہو
////////////////////////////////////////////////////
کہا اک مولوی صاحب نے مسجد میں نمازی سے
اگر ہو سامنے جوتا تو سجدہ ہی نہیں ہوتا
جواباً یہ کہا اس نے بجا ارشاد ہے لیکن
جو میں پیچھے رکھوں جوتا تو جوتا ہی نہیں ہوتا
///////////////////////////////////
بہت عمدہ شاعری ہے جی
ReplyDeletelehr meri na samundar mera
ReplyDeletekuch nahi nao se bahar mera
asim
منقسم ہیں سبھی لمحوں میں مرے خال و خد
ReplyDeleteیوں مکمل نہیں ہوتا کبھی پیکر میرا
بہت خوب
(اجنبی)