نصیر ترابی ، سلام غالب کی زمین میں
یہ جو مجلس میں اشکباری ہے یہاں خرچے میں نفع جاری ہے اے محرم تری فضا کو سلام دن ہمارا ہے شب ہماری ہے یہ مگر ذکرِ کربلا سے کھلا ایک غم میں بھی غمگساری ہے حلقہِ شورِ العطش میں کہاں وہ جو دریا کو بے قراری ہے کون پانی کو روکنے والا پیاس کا جبر اختیاری ہے ------قطع ------ ہمہ شب انتظارِ صبحِ وصال شب نہیں زندگی گزاری ہے فیصلے کا ہے ایک پل ورنہ سوچنے کو تو عمر ساری ہے دو قدم رہ گیا ہے خیمہِ شاہ حر پہ یہ وقت کتنا بھاری ہے ------------------------- آگئی یہ بھی منزلِ حجت اب فقط بے زباں کی باری ہے اب بھی ہے شانہِ علم پہ بلند مشک غازی نے کب اتاری ہے نصیر ترابی، کراچی
کچھ نظر نہیں آریا پوسٹ میں!!!!!۔
ReplyDeleteمیں دیکھتا ہوں صاحب۔
ReplyDeleteبلاگ پر تشریف لانے کو شکریہ صفدر صاحب
لیجیے جناب ویڈیو اور تحریر شامل کردی گئی ہے۔
ReplyDeleteوالسلام
م۔م۔مغل