غزل
انحصار کرنے کو تھی بہار کی وحشت
میں نے اور وحشت سے استوار کی وحشت
چاپ جب سلگتی ہو ، آہٹیں سسکتی ہوں
آنکھ میں اترتی ہے ، اشکبار کی وحشت
خامشی کے سرمائے دشتِ جاں میں چھوڑ آئے
اب نئے سفر پر ہے ، کاروبار کی وحشت
بے کلی فغاں کرنے میرے دل تک آپہنچی
اور میں نے مجبوراً ، اختیار کی وحشت
میں بھلا کہاں جاؤں، بستیوں پہ پہرہ زن
بام و در کی خاموشی، رہگزار کی وحشت
منفعت کا دکھ آخر کیوں جہان میں بانٹوں
میں نے خود اگائی تھی اعتبار کی وحشت
اے فشانِ کوہِ عشق بات کیا ہے آخر کیوں
عمر بھر سلگتی ہے ، انتظار کی وحشت
کچھ خبر تو ہو آخر کس لیے دھڑکتی ہے
اے ٍغزالِ دشتِ دل ، بار بار کی وحشت
اے زمینِ نومردہ کچھ توبول آنکھیں کھول
میں کہاں چھپاؤں گا شہریار کی وحشت
پات پات پر محمود ایک خوف رقصاں ہے
کتنے بن جلائے گی اک شرار کی وحشت
م۔م۔مغل
ایک شعری نشست میں: جس کی صدارت جناب سرشار صدیقی نے کی "فاتح الدین بشیر " بھی ہمراہ تھے
السلام علیکم محمود مغل بھائی۔
ReplyDeleteماشاء اللہ ۔ بہت عمدہ غزل ہے۔ پڑھ کر اور سن کر لطف آگیا ۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
امین۔
والسلام
محمد نعیم رضا
وعلیکم السلام
ReplyDeleteنعیم رضا صاحب
بہت بہت شکریہ جناب۔
آپ کی محبتوں کا مقروض
م۔م۔مغل
سلام علیکم
ReplyDeleteسبحان اللہ۔ جناب بہت عمدہ غزل ہے۔
آپ کے تازہ کلام کا منتظر ہوں۔
شکریہ
سید محمد نقوی
بہت بہت شکریہ سید محمد نقوی صاحب۔
ReplyDeleteانشا اللہ جلد ہی مزید کلام پیش کرتا ہوں۔
والسلام
اے زمینِ نومردہ کچھ توبول آنکھیں کھول
ReplyDeleteمیں کہاں چھپاؤں گا شہریار کی وحشت
پات پات پر محمود ایک خوف رقصاں ہے
کتنے بن جلائے گی اک شرار کی وحشت
---------------
بہت عمدہ جناب ۔۔۔
وسلام
بہت بہت شکریہ طالوت ۔
ReplyDelete