
Saturday, July 11, 2009
خرابی نظم از عزم بہزاد
خرابی
خرابی کا آغاز
کب اور کہاںسے ہوا
یہ بتانا ہے مشکل
کہاں زخم کھائے
کہاں سے ہوئے وار
یہ بھی دکھانا ہے مشکل
کہاں ضبط کی دُھوپ میں ہم بکھرتے گئے
اور کہاں تک کوئی صبر ہم نے سمیٹا
سنا نا ہے مشکل
خرابی بہت سخت جاں ہے
ہمیںلگ رہا تھا یہ ہم سے الجھ کر
کہیں مر چکی ہے
مگر اب جو دیکھا تو یہ شہر میں،
شہر کے ہر محلے میں، ہر ہر گلی میں
دھوئیں کی طرح بھر چکی ہے
خرابی رویوں میں،
خوابوں، میں خواہش میں،
رشتوں میں گھر کرچکی ہے
خرابی تو لگتا ہے
خوں میں اثر کرچکی ہے
خرابی کا آغاز
جب بھی ، جہاں سے ہوا ہو
خرابی کے انجام سے غالباً
جاں چھڑانا ہے مشکل
عزم بہزاد
عکسِ تحریر

Subscribe to:
Post Comments (Atom)
سب مشکل ہی مشکل
ReplyDeleteآسان کیا ہے ؟
بہت خوب مغل بھائی!
ReplyDeleteبہت اچھی بہت سچی بہت ہی اثر انگیز نظم ہے. کیا کہنے . واہ ! واہ! واہ!
ہم تو یوں بھی عزم بہزاد کی شاعری کے دلدادہ ہیں آپ کی محبت کے آپ نے ہمیں اس نظم سے متعارف کروایا.
اللہ آپ کو خوش رکھے .
خرابی کا آغاز بابا آدم کی غلطی سے ہوا۔
ReplyDeleteکامی
خرابی کا آغاز بابا آدم کی غلطی سے ہوا
ReplyDeleteخرابی کا آغاز بابا آدم کی غلطی سے نہیں ہوا!
ReplyDeleteکتنا آسان ہے اپنے گناہوں کا الزام دوسروں کے سر تھونپ کر اپنی جان چھڑا لینا .
افتخار اجمل ، محمد احمد اور سعد صاحب، بہت شکریہ
ReplyDelete------------------------------------------
(السلام علیکم-- میں نے آپ کے بلاگ پر کمنٹ کیا اور آپ نے مجھے سعدیہ سحر بنا دیا۔
خدارا ایسا ظلم مت کیجیے میرا نام سعد ہے سعدیہ نہیں)
-----------------------------------------
جناب دل پاکستانی صاحب مجھ سے غلطی رہی ۔ آپ کے حوالے کے ساتھ مدون کردیا ہے ، بہت بہت شکریہ اور کوفت کی معذرت
کوئی بات نہیں صاحب۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین
ReplyDelete